Page Nav

HIDE

Gradient Skin

Gradient_Skin

Breaking News

latest

بسنت ؛؛

بسنت ؛؛  بسنت ؛؛ حکومت پنجاب نے بست پر سے پابندی ہٹا دی۔ شاید اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بسنت کو پاکستان میں بین الاقوامی میلہ بنانے...



بسنت ؛؛ 
بسنت ؛؛ حکومت پنجاب نے بست پر سے پابندی ہٹا دی۔ شاید اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بسنت کو پاکستان میں بین الاقوامی میلہ بنانے میں موجودہ وزیراعظم کا ایک بہت بڑا کردار رہا۔ بہرحال ہم حکومت کے اس اقدام کی تعریف ضرور کریں گے۔ اس سے پہلے کہ اس خاتمہ کے مثبت اثرات پر گفتگو کی جائے اول یہ جان لیا جائے کہ بست ہے کیا۔ پچھلے چند سالوں سے مولویوں نے بسنت کے خلاف غیر ضروری پروپیگنڈا کیا ہوا تھا۔ اور اس کو خلاف شعیرت قرار دینے پر ادھار کھا چکے تھے۔ اور اس سلسلے جو کہانی گھڑی گئی وہ تو باکمال ہے کہ بسنت ایک گستاخ کی یاد میں منائی جاتی ہے۔ حالانکہ جب اس پر پابندی لگی تھی تو تب بھی اسکی وجوہات انتظامی ہی بیان کی گئی تھی دینی نہیں۔ دوسرا ان جہلاء کو یہ بھی پتا نہیں کہ اگر بالفرض اس کو کسی کی موت سے وابستہ بھی کر لیا جائے تو تب بھی دنیا میں غم کا اظہار کالے لباس سے کیا جاتا ہے اور اور ہندو مذہب میں سفید لباس سے۔ تو یہ پیلا رنگ کہاں سے آگیا۔ پھر تاریخی طور پر یہ بات ثایت شدہ ہے کہ بست ہمیشہ سے ہی پنجاب کا ثقافتی تہوار رہا اگر اس میں کوئی ہندو مت کے حوالے سے دینی عنصر ہوتا تو یہ گجرات میں ذیادہ پروان چڑھتا۔ ان جہل ملاء کو یہ بھی نعیں پتا کہ کسی بھی علاقہ کی ثقافت کا تعلق نہ دین سے ہوتا ہے اور نہ ہی دین کسی ثقافتی اقدار سے منع کرتا ہے الا کہ یہ براراست دین کے بنیادی اصولوں سے ٹکراو نہ کرے۔ اب گڈیاں اڑانے سے دین کس طرح خطرے میں ہو جاتا ہے۔ کیا اسلام اتنا ہی کمزور ہے کہ چند نوجوانوں کی پتنگ بازی دین کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ البتہ ڈور یا بجلی کے حوالے سے بیشک حکومت کو اقدام کرنا چاہیں کہ اس سے کسی جانی یا مالی نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔ بسنت دراصل صدیوں سے پنجاب کا ثقافتی میلہ ہے۔ کہ موسم بہار کی آمد ہوتی تھی اور کسان گندم کی کاشت کے بعد فارغ ہو کر خوشی کا اظہار کرتے تھے اور اس میں مرکزی حثیت پیلے رنگ کو حاصل رہی جو کہ اس موسم میں سرسوں کی گندلوں پر لہرانے والے پھولوں سے وابستہ ہے۔ اس موسم میں پوری دھرتی سرسوں کے پیلے پھولوں سے ہر طرف مہک رہی ہوتی ہے موسم خوشگوار ہوتا ہے اور کسان فارغ۔ پنجاب میں شروع سے ہی اس تہوار کو جوش سے منایا جاتا ہے اور 90s میں خاص کر محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورے حکومت میں جب نواسہ علامہ اقبال یوسف صلاح الدین صلو ثقافتی امور کے ذمہ دار تھے تو انہوں نے اس پر بعت کام کیا۔ پہلی دفعہ اس کو پروفیشنل طریقے سے ترقی دی گئی۔ تمام پبلک فگر جیسے سیاستدان ادکار کھلاڑی اس میں شامل کئے گئے ۔ میڈیا کی بے تحاشا کوریج کی گئی۔ یوسف صلاح الدین صلو کی لاہور کی حویلی اس کا مرکز بنی۔ اور یہی پر موجودہ وزیراعظم  عمران خان جو کہ یوسف صلاح الدین کے ذاتی   دوست ہیں بھی ڈیرہ لگاتے تھے۔ اس سے یہ تہوار ایک دم سے ایک بین الاقوامی تہوار بن گیا۔ یورپ مڈل ایسٹ امریکہ افریقہ سے لوگ اس کو منانے آتے۔ فروری سے اپریل تک لاہور کے ہوٹلوں میں جگہ نہ ملتی تھی
 انڈیا سے ریکارڈ سیاح آتے تھے انکی عوامی سیلیبرٹیز شریک ہوتی تھی۔ یعنی سیاحت کا یہ ایک مناسب طریقہ تھا۔ پھر اس کے خلاف نام نہاد ملاء اول کھڑے ہوئے پھر دھاتی ڈور کا بہانہ ہوا اور اس پر پابندی لگ گئی۔ اور اب سالوں بعد اس پر اگر پابندی اٹھی تو اس کو محض بغض عمران خان میں لینا
 ذیادتی ہے۔ بسنت نہ صرف ہماری سیاحتی انڈسٹری واسطے تریاق ہے بلکہ ان حالات میں جب ملک میں معاشی پریشانی ثقافتی کم توجہی معاشرتی بے چینی ہے۔ ہمارا نوجوان خوشیاں بھول چکا ہے۔ ملک میں گھٹن کا ماحول ہے تو اس صورت حال میں بسنت کا میلہ غنیمت ہے۔ اور حکومت کو نہ صرف اسکی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے بلکہ اس سلسلے میں سہولیات بھی مہیا کرنی چاہیثے۔ الیتہ ڈور اور گنجان آبادیوں میں جو نقصانات کا اندیشہ ہے اسکو بہرحال انتظامی طور پر حل کرنا اولین ترجیح رکھنی چاہئے۔
 سید فیاض گیلانی -
 ایک عام پاکستانی

No comments