عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں بری کردیا، العزیزیہ میں نواز شریف کو 7برس قید، کمرہ عدالت سے گرفتاری کے بعداڈیالہ جیل منتقل احتساب عدالت ن...

عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں بری کردیا، العزیزیہ میں نواز شریف کو 7برس قید، کمرہ عدالت سے گرفتاری کے بعداڈیالہ جیل منتقل
احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید، 15 لاکھ برطانوی پاؤنڈ اور 25 ملین ڈالرز کا الگ الگ جرمانہ یعنی تقریبا 3 ارب 83 کروڑ کروڑ روپے جرمانہ کرنے کے علاوہ جائیداد ضبط کرنے کی سزا سنا دی گئی ہے جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ العزیزیہ ریفرنس میں سزا ملنے کے بعد نواز شریف 10 سال کیلئے سیاست سے نااہل بھی ہو گئے ہیں۔ فیصلے کے بعد نیب حکام نے نواز شریف کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا۔
جیونیوز کے مطابق احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریفرنسز پر فیصلہ سنایا، اس موقع پر نواز شریف فیصلہ سننے بذات خودعدالت میں موجود تھے ،عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں کیس نہیں بنتا، اس لئے نواز شریف کو بری کیا جاتا ہے، فیصلے میں مزید کہا کہ العزیزیہ ریفرنس میں کافی ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور نواز شریف منی ٹریل نہیں دے سکے، لہٰذا اس مقدمے میں انہیں 7 سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے اور25ملین ڈالر جرمانے کی سزاسنائی جاتی ہے ۔
عدالت کے زبانی حکم نامے میں حسن اور حسین نواز کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی جبکہ عدالت حسن اور حسین نواز کو عدم حاضری پر پہلے ہی اشتہاری قرار دے کر دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی ہے۔
احتساب عدالت میں سزا سننے کے بعد نواز شریف نے احتساب عدالت سے درخواست کی کہ مجھے اڈیالہ جیل کے بجائے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا جائے،اس موقع نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے نواز شریف کی درخواست کی مخالفت کی گئی، تاہم عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کا حکم دیدیا۔
اس موقع پرسابق وزیراعظم نے نیب کے ساتھ اڈیالہ جیل جانے سے انکار کردیا،نواز شریف نے نیب ٹیم سے پوچھا کہ کہاں لے کر جارہے ہیں؟ جس پر نیب ٹیم نے کہا پہلے اڈیالہ لے کر جائیں گے اور کل صبح کوٹ لکھپت لے جایا جائے گاجس پر نواز شریف نے نیب کی ٹیم کے ساتھ جانے سے انکار کردیا تاہم کچھ دیر بعد سابق وزیراعظم جانے پر رضا مند ہوگئے۔
نوازشریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس میں جاری کردہ احتساب عدالت کا تفصیلی فیصلہ 131 صفحات پر مشتمل ہے۔فیصلے کے مطابق نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت سمیت 25 ملین ڈالر اور 1.5 ارب روپے روپے جرمانہ بھی کیا گیا ہے، فیصلے میں حکم دیا گیا ہے کہ سعودی حکومت سے رابطہ کرکے حکومت ہل میٹل سٹیبلشمنٹ کے اثاثے ضبط کرے، فیصلے کے مطابق میاں نواز شریف بدعنوانی کے مرتکب ہوئے، استغاثہ نواز شریف پر بدعنوانی کا جرم ثابت کرنے میں کامیاب ہوا، نواز شریف ہل میٹل کے بینیفشل اونر ہیں، وہ ثابت نہ کرسکے کہ ہل میٹل سے ملی رقم اور ہل میٹل ان کے ذرائع آمدن کے مطابق ہے لہٰذا نواز شریف کو کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے ،تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب آرڈی نینس کی سیکشن 10 کے تحت نوازشریف کو سزا سنائی جاتی ہے، نواز شریف اگر کوئی عوامی عہدہ رکھتے ہیں تو فوری طور پر نا اہل ہوں گے، سزا پوری ہونے کی تاریخ سے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے 10 سال تک نااہل ہوں گے، اگر اس کیس میں گرفتار ہوئے ہیں تو جیل میں گزارا گیا عرصہ سزا کی مدت میں شامل کیاجائیگا۔فیصلے میں کہا گیاہے کہ حسن نواز اور حسین نواز کو پہلے ہی اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے، دونوں کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کئے جاتے ہیں، نیب دونوں کا نام اشتہاری ملزمان کی فہرست میں شامل کرکے کورٹ کے ریکارڈ پر لائے جب کہ دونوں کی عدالت میں پیشی تک ریفرنس کی فائل اور مواد ریکارڈ روم میں رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ فیصلے کے مطابق نیب آرڈی نینس کی سیکشن 32 کے تحت متعلقہ ہائی کورٹ میں 10 دن میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔
فیصلے کے موقع پر لیگی کارکنوں اور سینئر رہنماؤں کی بڑی تعداد بھی احتساب عدالت کے باہر موجود رہی جن میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگزیب، احسن اقبال، مرتضی جاوید عباسی، رانا تنویر، راجا ظفر الحق، مشاہد اللہ خان اور خرم دستگیر سمیت دیگر شامل ہیں۔

اس موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے۔ احتساب عدالت کے اطراف ایک ہزار پولیس اہلکار تعینات تھے جبکہ کمرہ عدالت میں نواز شریف کو کلوز پروٹیکشن یونٹ سیکیورٹی بھی فراہم کی گئی۔ ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے رینجرز بھی موجود رہی جبکہ بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکاروں نے عدالت کے اطراف چیکنگ بھی کی۔

سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017ءکو سنائے گئے پاناما کیس کے فیصلے کے نتیجے میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دیدیا گیا تھا جبکہ عدالت عظمیٰ نے نیب کو شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔8 ستمبر 2017ءکو نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملز، فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور ایون فیلڈ ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کئے۔
احتساب عدالت ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ پہلے ہی سنا چکی ہے جس میں نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی جسے بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔ دوسری جانب 19 اکتوبر2017ءکو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد ہوئی جبکہ 20 اکتوبر2017ءاحتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد کی اور حسن نواز اور حسین نواز کو مفرور ملزمان قرار دیا گیا۔
احتساب عدالت نمبر ایک اور دو میں نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں، جن میں سے العزیزیہ ریفرنس میں 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔سابق وزیراعظم مجموعی طور پر 130 بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، وہ 70 بار احتساب عدالت نمبر 1 کے جج محمد بشیر اور 60 بار احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک کے روبرو پیش ہوئے۔
احتساب عدالت نے مختلف اوقات میں نواز شریف کو 49 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا، جج محمد بشیر نے 29 جبکہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کو 20 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا۔احتساب عدالت نمبر ایک میں 70 میں سے 65 پیشیوں پر مریم نواز میاں نواز شریف کے ساتھ تھیں۔ایون فیلڈ میں سزا کے بعد نواز شریف کو 15 بار اڈیالہ جیل سے لا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔
No comments